- Beverly Van Kampen
اِس بات پر سوچیں کہ خُدا کو آپ کی زندگی کے کِس پہلو میں زیادہ دِلچسپی ہے۔ کیا وہ آپ کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے؟ وہ آپ کی ساری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے؟ کیا وہ آپ کو بہت بڑے تحائف دیتاہے؟ کئی دفعہ وہ یہ سب ایک محبت کرنے والے اور شفیق باپ کے طور پر کرتاہے اور ہم اِس پر بہت خُوش ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری زندگی میں آرام اور آسائش سے زیادہ وہ ہمارے کردار میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اور کردار میں مُشکلات کے بغیر بہت مُشکل سے تبدیلی آتی ہے۔
روت کی کتاب کے پہلے باب کے آخری حِصے پر جب ہم پہنچتے ہیں تو ہمیں اِس بات کا پتا چلتا ہے کہ روت کو بہت سے مسائل درپیش تھے۔ پہلی مُشکل اُس کی ساس کے لہجے کی کڑواہٹ۔ جب وہ بیت لحم کو لَوٹ گئیں تو نعومی اپنے رِشتہ داروں، دوستوں کے ساتھ اِس طرح سے مُخاطب ہوئی۔ روت 1 باب 20 – 21 آیات " اس نے ان سے کہا کہ مجھ کو نعومی نہیں بلکہ ماراہ کہا اس لیے کہ قادر ِمُطلق میرے ساتھ نہایت تلخی سے پیش آیا ہے۔میں بھری پوری گئی تھی اور خداوند مجھ کو خالی پھیر لایا ہے۔ پس تم کیوں مجھے نعومی کہتی ہو حالانکہ خداوند میرے خلاف مدعی ہوا اورقادرِ مُطلق نے مجھے دکھ دیا ؟ ۔ نعومی کا مطلب ہے خُوشگوار اور مارا کا مطلب ہے تلخ۔ اصل میں نعومی نے اپنے حالات اور تجربے کے مُطابق اپنے نام کو بدل لیا تھا۔
اگر آپ کبھی ایسے لوگوں کے ساتھ رہے ہوں جو سخت مِزاج کے ہوں تو آپ کو یہ اِحساس ہو گا کہ یہ کِتنی بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ اچھے لوگوں اور حالات میں رہنا آسان ہے مگر روت جانتی تھی کہ مُوآب کو چھوڑنے کے بعد اُس کو مُشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روت کا دُوسرا مسئلہ خُوراک تھا۔ لیکن خُوش قسمتی سے نعومی جانتی تھی کہ بیت الحم میں زِندگی کس طرح سے گُزارنی ہے اور اِس لیے اُس نے روت کو فصل جمع کرنے کے کام پر بھیج دیا۔ یہودی شریعت کے مُطابق، خُدا نے یہ حُکم دیا تھا کہ جب فصل کی کٹائی کی جائے تو نیچے گرے ہوئے دانے اُٹھائے نہ جائیں تاکہ وہ لوگ جن کے پاس خُوراک کا اِنتظام نہیں ہے وہ اُس کو چُن کر کھانا کھا سکیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی گرمی میں یہ آسان کام نہیں تھا کہ دو روٹیاں کھانے کے لیے سخت مِحنت کی جائے، لیکن روت یہ کام کرنے کو تیار تھی۔
نعومی نے روت کو بوعز کے کھیت میں فصل جمع کرنے کے لیے بھیجا، جو کہ نعومی کا دور کا رِشتہ دار تھا۔ ہو سکتاہے کہ روت کو بہت زیادہ مَردوں کے درمیان کام کرنا مُشکل لگا ہو، لیکن بوعز نے روت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے اُس کی دیکھ بھال کی، اُس کو پانی اور فصل مُہیا کی۔ زندگی آسان نہیں تھی لیکن روت نے ہر روز محنت کی۔ جب اُس نے دیکھا کہ بوعز کا رویہ اُس کے لیے اچھا ہے تو اُس نے اُس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ اور اُس نے اِس طرح سے جواب دیا۔ " بوعز نے اُس سے کہا کہ جو کچھ تُو نے اپنے خاوند کےمرنے کے بعد اپنی ساس کے ساتھ کیا وہ سب مجھے پورے طور پر بتایا گیا ہے کہ تُو نے کیسے اپنے ماں باپ اورزاد بوم کو چھوڑا اور ان لوگوں میں جنکو تُو اِس سے پیشتر نہ جانتی تھی آئی" (روت 2 باب 11 آیت)۔ وہ جوان تھی اور یقینی طور پر خُوبصورت بھی ہوگی، لیکن بوعز کے جواب سے پتا چلتا ہے کہ اُس نے یہ جواب روت کے کردار کی وجہ سے دیا تھا اور وہ سب کُچھ جو اُس نے نعومی کے لیے کیا۔
کردار بہت اہمیت رکھتا ہے، لوگ ہر بات کا مُشاہدہ کرتے ہیں کہ ہم کِس طرح بات کرتے ہیں، کام کیسے کرتے ہیں اور ہم دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ رُوت کے کردار کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بوعز نے اُس کے بارے میں بات کی تو اُس نے کہا " پاک دامن عورت" (روت 3 باب 11 آیت)۔ ایسے ہی الفاظ اِمثال 31 باب اور اُس کی 10 آیت میں لِکھے گئے ہیں ، نیکوکار عورت، پاک دامن اور پھر ایک اچھی بیوی کی خصوصیات لکھی گئی ہیں ۔
جانی ایرکسن ٹاڈا، جو کہ اب 71 سال کی ہے 19 سال کی عمر میں ایک حادثے میں معذور ہو گئی تھی۔ حادثے کاشِکار ہونے کے کُچھ سال بعد تک وہ اِس خواہش کا اِظہار کرتی رہی کہ خُدا اُس کی زندگی میں معجزہ کرے گا۔ جب کُچھ عرصے تک اُس کو دُعاؤں کا جواب نہ مِلا تو اُس کو اِس بات کا اِحساس ہوا کہ " خُدا ہمارے ظاہری حالات سے زیادہ ہماری باطنی خصوصیات میں دِلچسپی لیتا ہے۔ جیسے کہ ہمارا ایمان، عاجزی، خیالات کی پاکیزگی اور کردار کی پُختگی"۔ ہم خُدا کے لوگ بننے کے لیے کتنے پُرعزم ہیں؟ کیا ہم بعض اوقات بے اعتقاد، تلخ، مغرور، معاف نہ کرنے والے، مُحبت نہ کرنے والے ہوجاتے ہیں؟ یا پھر ہم سارا وقت مُستقل اضطراب یا بے چینی کی حالت میں رہتے ہیں۔
ہمیں اِس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ہم خود ہی کوئی بامقصد تبدیلی لانے میں بے بس ہیں۔ ہمیں خُدا سے اِس بات کی درخواست کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہماری منفی خصلتوں کو ختم کردے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ مُحبت ، خوشی، شفقت، امن، صبر، نرمی، عاجزی، نیکی، احسان، خود پر قابو، وفاداری، دیانتداری اور شُکرگُزاری ہم میں ہو۔ کردار کی تبدیلی کا آغاز ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ جو خیالات ہمارے اندر ہوتے ہیں وہی ہماری شخصیت کا حِصہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں اِس بات کے لیے دُعا کرنا چاہیے کہ خُدا ہم پر فضل کرے اور ہم کو فہم عطا کرے ، تاکہ ہم اپنے فیصلوں کو بہتر طریقے سے کر سکیں۔ ہم اِس دُنیا سے زیادہ ابدیت کا سوچیں۔ اپنے لیے چیزوں کو حاصل کرنے سے زیادہ ہم لوگوں کو دیں۔ ہوس سے زیادہ اِخلاقی پاکیزگی کے بارے میں سوچیں ، اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں سوچیں۔ جب ہم خُدا کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تو پھر خُدا ہم پر فضل کرتا ہے اور ہماری زندگیوں میں مُثبت تبدیلی آتی ہے۔
" اور اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صُورت بدلتے جاؤ تاکہ خُدا کی نیک اور پسندِیدہ اور کامِل مرضی تجربہ سے معلُوم کرتے رہو"۔ (رومیوں 12 باب 2 آیت)۔
- Josiah Masvero
This is body text.
"There is no strife, no prejudice, no national conflict in outer space as yet. Its hazards are hostile to us all. Its conquest deserves the best of all mankind, and its opportunity for peaceful cooperation many never come again. But why, some say, the moon? Why choose this as our goal? And they may well ask why climb the highest mountain? Why, 35 years ago, fly the Atlantic? Why does Rice play Texas?
We choose to go to the moon. We choose to go to the moon in this decade and do the other things, not because they are easy, but because they are hard, because that goal will serve to organize and measure the best of our energies and skills, because that challenge is one that we are willing to accept, one we are unwilling to postpone, and one which we intend to win, and the others, too."
- Beverly Van Kampen
روت کی کہانی میں ہماری دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ایک مُحبت کی کہانی ہے، اِس لیے کون اِس کہانی کو پسند نہیں کرے گا۔ لیکن کیا آپ اِس بات سے واقف ہیں کہ روت کی کِتاب میں روت اور بوعز کی مُحبت سے بڑھ کر کُچھ اور بھی ہے۔ یہ ہمارے لیے خُدا کی مُحبت اور تخلیقِ کائنات سے پہلے ہی اِنسان کو بچانے کے منصوبے کی تصویر ہے۔ جیسے جیسے ہم کہانی کے اِختتام کی جانب بڑھیں گے، ہم اور زیادہ باتوں کو جانیں گے۔ روت کی کہانی ہمارے لیے روحانی زندگی کی ایک بڑی تصویر پیش کرتی ہے، کہ ہم کِس طرح سے پورے دِل کے ساتھ خُدا کی پیروی کرسکتے ہیں اور اُس پر یقین رکھنے کے نتائج کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔ آئیے ہم اِبتدا سے اِس کا آغاز کرتے ہیں۔ روحانی زندگی کا آغاز تبدیلی سے ہوتاہے۔
پیدائشی طور پر روت ایک یہودی نہیں تھی۔ وہ موآبی تھی، جو مشرق کی طرف اِسرائیل کی سرحد سے مُتصل سر زمین میں پیدا ہوئی تھی۔ ایک ایسا مُلک جو مُستقل طور پر اِسرائیل کا دُشمن تھا۔ در حقیقت پیش گوئی کی کتابیں موآب کے خِلاف فیصلے کے اعلانات سے بھری ہوئی ہیں، کیونکہ وہ خُدا کے لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے۔موآب میں جہاں پر روت کی پرورش ہوئی وہاں پر بہت سے دیوتاؤں کی پرورش کی جاتی تھی خاص طور پر کموس کی جس کوساری قوم کا دیوتا سمجھا جاتا تھا۔ لیکن روت کی کِتاب کے
پہلے باب میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روت نے اپنے آباؤاجداد کی مذہبی تعلیمات کو چھوڑ
کر ،اپنی ساس نعومی اور اِسرائیلی قوم کے خُدا کو اپنا لیا۔
پہلے باب میں ہم اِس کہانی کے پسِ منظر کو پڑھتے ہیں۔ نعومی اور اُس کا شوہر الیملک اپنے دو بیٹوں کے ساتھ قحط کے باعث یہوداہ کے شہر بیت الحم (جس کا مطلب ہے روٹی کا شہر) سے ہِجرت کر کے موآب کو آئے اور وہاں پر کئی سال قیام کیا۔اِسی دوران اُن کے بیٹے بڑے ہو گئے اور اُن کی شادیاں موآبی لڑکیوں کے ساتھ ہوئیں جن میں سے ایک کا نام روت اور دوسری کا نام عرفہ تھا۔ کُچھ اساتذہ کا یہ ماننا ہے کہ اِن دونوں خواتین نے شادی کے بعد یہودی مذہب کو اپنا لیا تھا۔ پھر الیملک اور اُس کے دونوں بیٹے فوت ہو گئے ، اور اِس وجہ سے نعومی اور اُس کی دونوں بہوئیں بہت پریشانی کی حالت میں تھیں۔ جب نعومی کو تنہائی اور سخت گھریلو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تو اُس نے اپنے آبائی شہر بیت المقدس کو لَوٹ جانے کا فیصلہ کیا لیکن اِس کے ساتھ اُس نے اپنی بہوؤں کو موآب میں رہنے کی تلقین کی۔ کُچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اِس طرح سے نعومی اِس بات کی جانچ کر رہی تھی کہ اُس کی بہوئیں اُس کے ساتھ، اور اِسرائیل کے خُدا کے ساتھ کتنی وفادار ہیں۔
اگر ایسا تھا تو عرفہ جس نے موآب میں رہنے کو ترجیح دی وہ شاید سچی ایماندار نہیں تھی۔لیکن دوسری طرف روت ہے ،جس نے نعومی کے سامنے ایک ایسا بیان دیا جِس سے اُس کا تاحیات عزم اور اپنے عقیدے کے ساتھ خلوص نظر آتا ہے۔ " روت نے کہا تو مِنت نہ کر کہ میں تجھے چھوڑوں اورتیرے پیچھے سے لَوٹ جاؤں کیونکہ جہاں تو جائیگی میں جاؤنگی اور جہاں تو رہیگی میں رہونگی تیرے لوگ میرے لوگ اور تیرا خُدا میرا خُدا۔ جہاں تو مریگی میں مرونگی اور وہیں دفن بھی ہونگی خُداوند مجھ سے ایسا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ کرے اگر موت کے سوا کوئی چیز مجھ کو تجھ سے جُدا کر دے (روت 1 باب 16آیت سے 17)"۔
اپنی زندگی کے اندر چند فیصلے جو ہم کرتے ہیں وہ ہماری ساری زندگی کی سِمت کا تعین کرتے ہیں۔ وہ زندگی جو روت موآب میں گُزار رہی تھی اُس سے مُکمل طور پر اپنے آپ کو علیحدہ کیا اور واحد اور سچے خُدا کی پیروی کرنے کا فیصلہ کیا، اور وہ نعومی کے ساتھ بیت الحم کو چلی گئی۔ یہ ایک جُرت مندانہ فیصلہ تھا۔ لیکن اِس فیصلے کے پیچھے صرف روت کے دِل میں نعومی کے لیے مُحبت ہی نہیں تھی بلکہ کُچھ اِس سے بھی بڑھ کر تھا اور وہ روت کا اپنے خُدا کے ساتھ تعلق تھا۔
اِس بات سے ہمیں ابراہام کی یاد آتی ہے۔ پیدائش کی کتاب کا 12 باب اور 1 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اُس نے بھی اپنے مُلک کو چھوڑا، اپنے رِشتہ داروں کو چھوڑا اور اپنے باپ کے گھر کو چھوڑا تاکہ ایسے مُلک کو جا سکے جو خُدا نے ابھی اُس کو دِکھایا نہیں تھا۔ روت شاید اِس بات کو نہیں جانتی تھی، مگر وہ باپ ابراہام کی طرز پر چل رہی تھی جِس کے لوگوں کے ساتھ اُس نے زِندگی گُزارنی تھی، پرستش کرنی تھی اور جن کے مُستقبِل میں ایک کلیدی کردار ادا کرنا تھا۔ ہم ابراہام اور روت کی کہانیوں سے یہ جان سکتے ہیں کہ ایمان کے ساتھ خُدا کی طرف بڑھایاہُوا ہمارا پہلا قدم ہی ہر ایک چیز کو بدل دیتا ہے۔ خُدا
اپنے آپ کو ہم پر مُسلط نہیں کرتا بلکہ وہ ہمیں بُلاتا ہے، اور ہمیں اِس بات کا فیصلہ کرناہے کہ ہمیں اُس پر ایمان رکھنا ہے اور اُس کی پیروی کرنی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ خُدا تک ہماری رسائی یسوع مسیح کے وسیلے سے ہے جو زمین پر آیا، مر گیا، جی اُٹھا اور آسمان پر چلا گیا۔ تو خُدا کی طرف رُجوع کرنے کا مطلب کسی دوسری قوم کی طرف جانا نہیں ہے کہ اب اُن کے خُدا کی پیروی کی جائے گی۔ بلکہ یسوع کے وسیلے سے ہم کائنات کے خالق کی طرف رُجوع کرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے ہمیں روت کی طرح اپنا سامان باندھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں دُعا کے ذریعے توبہ کرنی ہے۔
تب ہم اُس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا عزم کرتے ہیں۔ ہم دُعا کرتے ہیں، پرستش کرتے ہیں،ہم دُوسرے ایمانداروں کے ساتھ رفاقت رکھتے ہیں، کلام پڑھتے ہیں اورخدِمت کا کام کرتے ہیں۔یسوع مسیح کے وسیلے سے خُدا کے ساتھ ہمارا تعلق، ہماری زندگی کا بُنیادی مرکز بن جاتا ہے۔روت کی زندگی کا مُطالعہ ہمیں سِکھاتا ہے کہ جب ہم خُدا کو اپنی زندگی میں اول درجہ دیتے ہیں تو باقی سب چیزوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ اِس لیے کسی بھی چیز کو اپنے اور خُدا کے درمیان حائل نہ ہونے دیں۔ اپنے اندر سے خوف کو ختم کر کے خُدا پر بھروسہ رکھیں۔ خُدا جو کُچھ آپ کو کہتا ہے اُن کاموں کو کرنے کا آغاز آج ہی سے کریں۔ وہ آپ کی اطاعت اور عزم کو اہمیت دے گا ، اور آپ اپنی زندگی میں تبدیلی اور روح میں ترقی کو محسوس کریں گے۔ ہوسکتا ہے کہ خُدا آپ کو مُشکل کام کرنے کو کہے، لیکن وہ آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔
"سارے دِل سے خُداوند پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہ تیری راہنُمائی کریگا" اِمثال 3 باب 5-6 آیت۔