کردار کی اہمیت
اِس بات پر سوچیں کہ خُدا کو آپ کی زندگی کے کِس پہلو میں زیادہ دِلچسپی ہے۔ کیا وہ آپ کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے؟ وہ آپ کی ساری دُعاؤں کا جواب دیتا ہے؟ کیا وہ آپ کو بہت بڑے تحائف دیتاہے؟ کئی دفعہ وہ یہ سب ایک محبت کرنے والے اور شفیق باپ کے طور پر کرتاہے اور ہم اِس پر بہت خُوش ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری زندگی میں آرام اور آسائش سے زیادہ وہ ہمارے کردار میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اور کردار میں مُشکلات کے بغیر بہت مُشکل سے تبدیلی آتی ہے۔
روت کی کتاب کے پہلے باب کے آخری حِصے پر جب ہم پہنچتے ہیں تو ہمیں اِس بات کا پتا چلتا ہے کہ روت کو بہت سے مسائل درپیش تھے۔ پہلی مُشکل اُس کی ساس کے لہجے کی کڑواہٹ۔ جب وہ بیت لحم کو لَوٹ گئیں تو نعومی اپنے رِشتہ داروں، دوستوں کے ساتھ اِس طرح سے مُخاطب ہوئی۔ روت 1 باب 20 – 21 آیات " اس نے ان سے کہا کہ مجھ کو نعومی نہیں بلکہ ماراہ کہا اس لیے کہ قادر ِمُطلق میرے ساتھ نہایت تلخی سے پیش آیا ہے۔میں بھری پوری گئی تھی اور خداوند مجھ کو خالی پھیر لایا ہے۔ پس تم کیوں مجھے نعومی کہتی ہو حالانکہ خداوند میرے خلاف مدعی ہوا اورقادرِ مُطلق نے مجھے دکھ دیا ؟ ۔ نعومی کا مطلب ہے خُوشگوار اور مارا کا مطلب ہے تلخ۔ اصل میں نعومی نے اپنے حالات اور تجربے کے مُطابق اپنے نام کو بدل لیا تھا۔
اگر آپ کبھی ایسے لوگوں کے ساتھ رہے ہوں جو سخت مِزاج کے ہوں تو آپ کو یہ اِحساس ہو گا کہ یہ کِتنی بڑی آزمائش ہوتی ہے۔ اچھے لوگوں اور حالات میں رہنا آسان ہے مگر روت جانتی تھی کہ مُوآب کو چھوڑنے کے بعد اُس کو مُشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ روت کا دُوسرا مسئلہ خُوراک تھا۔ لیکن خُوش قسمتی سے نعومی جانتی تھی کہ بیت الحم میں زِندگی کس طرح سے گُزارنی ہے اور اِس لیے اُس نے روت کو فصل جمع کرنے کے کام پر بھیج دیا۔ یہودی شریعت کے مُطابق، خُدا نے یہ حُکم دیا تھا کہ جب فصل کی کٹائی کی جائے تو نیچے گرے ہوئے دانے اُٹھائے نہ جائیں تاکہ وہ لوگ جن کے پاس خُوراک کا اِنتظام نہیں ہے وہ اُس کو چُن کر کھانا کھا سکیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی گرمی میں یہ آسان کام نہیں تھا کہ دو روٹیاں کھانے کے لیے سخت مِحنت کی جائے، لیکن روت یہ کام کرنے کو تیار تھی۔
نعومی نے روت کو بوعز کے کھیت میں فصل جمع کرنے کے لیے بھیجا، جو کہ نعومی کا دور کا رِشتہ دار تھا۔ ہو سکتاہے کہ روت کو بہت زیادہ مَردوں کے درمیان کام کرنا مُشکل لگا ہو، لیکن بوعز نے روت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے اُس کی دیکھ بھال کی، اُس کو پانی اور فصل مُہیا کی۔ زندگی آسان نہیں تھی لیکن روت نے ہر روز محنت کی۔ جب اُس نے دیکھا کہ بوعز کا رویہ اُس کے لیے اچھا ہے تو اُس نے اُس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ اور اُس نے اِس طرح سے جواب دیا۔ " بوعز نے اُس سے کہا کہ جو کچھ تُو نے اپنے خاوند کےمرنے کے بعد اپنی ساس کے ساتھ کیا وہ سب مجھے پورے طور پر بتایا گیا ہے کہ تُو نے کیسے اپنے ماں باپ اورزاد بوم کو چھوڑا اور ان لوگوں میں جنکو تُو اِس سے پیشتر نہ جانتی تھی آئی" (روت 2 باب 11 آیت)۔ وہ جوان تھی اور یقینی طور پر خُوبصورت بھی ہوگی، لیکن بوعز کے جواب سے پتا چلتا ہے کہ اُس نے یہ جواب روت کے کردار کی وجہ سے دیا تھا اور وہ سب کُچھ جو اُس نے نعومی کے لیے کیا۔
کردار بہت اہمیت رکھتا ہے، لوگ ہر بات کا مُشاہدہ کرتے ہیں کہ ہم کِس طرح بات کرتے ہیں، کام کیسے کرتے ہیں اور ہم دوسروں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ رُوت کے کردار کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بوعز نے اُس کے بارے میں بات کی تو اُس نے کہا " پاک دامن عورت" (روت 3 باب 11 آیت)۔ ایسے ہی الفاظ اِمثال 31 باب اور اُس کی 10 آیت میں لِکھے گئے ہیں ، نیکوکار عورت، پاک دامن اور پھر ایک اچھی بیوی کی خصوصیات لکھی گئی ہیں ۔
جانی ایرکسن ٹاڈا، جو کہ اب 71 سال کی ہے 19 سال کی عمر میں ایک حادثے میں معذور ہو گئی تھی۔ حادثے کاشِکار ہونے کے کُچھ سال بعد تک وہ اِس خواہش کا اِظہار کرتی رہی کہ خُدا اُس کی زندگی میں معجزہ کرے گا۔ جب کُچھ عرصے تک اُس کو دُعاؤں کا جواب نہ مِلا تو اُس کو اِس بات کا اِحساس ہوا کہ " خُدا ہمارے ظاہری حالات سے زیادہ ہماری باطنی خصوصیات میں دِلچسپی لیتا ہے۔ جیسے کہ ہمارا ایمان، عاجزی، خیالات کی پاکیزگی اور کردار کی پُختگی"۔ ہم خُدا کے لوگ بننے کے لیے کتنے پُرعزم ہیں؟ کیا ہم بعض اوقات بے اعتقاد، تلخ، مغرور، معاف نہ کرنے والے، مُحبت نہ کرنے والے ہوجاتے ہیں؟ یا پھر ہم سارا وقت مُستقل اضطراب یا بے چینی کی حالت میں رہتے ہیں۔
ہمیں اِس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ہم خود ہی کوئی بامقصد تبدیلی لانے میں بے بس ہیں۔ ہمیں خُدا سے اِس بات کی درخواست کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہماری منفی خصلتوں کو ختم کردے، کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ مُحبت ، خوشی، شفقت، امن، صبر، نرمی، عاجزی، نیکی، احسان، خود پر قابو، وفاداری، دیانتداری اور شُکرگُزاری ہم میں ہو۔ کردار کی تبدیلی کا آغاز ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ جو خیالات ہمارے اندر ہوتے ہیں وہی ہماری شخصیت کا حِصہ بن جاتے ہیں۔ ہمیں اِس بات کے لیے دُعا کرنا چاہیے کہ خُدا ہم پر فضل کرے اور ہم کو فہم عطا کرے ، تاکہ ہم اپنے فیصلوں کو بہتر طریقے سے کر سکیں۔ ہم اِس دُنیا سے زیادہ ابدیت کا سوچیں۔ اپنے لیے چیزوں کو حاصل کرنے سے زیادہ ہم لوگوں کو دیں۔ ہوس سے زیادہ اِخلاقی پاکیزگی کے بارے میں سوچیں ، اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں سوچیں۔ جب ہم خُدا کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تو پھر خُدا ہم پر فضل کرتا ہے اور ہماری زندگیوں میں مُثبت تبدیلی آتی ہے۔
" اور اِس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صُورت بدلتے جاؤ تاکہ خُدا کی نیک اور پسندِیدہ اور کامِل مرضی تجربہ سے معلُوم کرتے رہو"۔ (رومیوں 12 باب 2 آیت)۔
コメント